Sunday, October 4, 2015

جاوید احمد غامدی کی کم علمی وکم فہمی(محمد صلی علیہ وسلم نہ ہوتے تو کچھہ بھی نہ ہوتا)

جاوید احمد غامدی کی کم علمی وکم فہمی

ماہ جون میں ادارے کو بے شمار ٹیلی فون کالز اور کئی خطوط موصول ہوئے جس میں قارئین نے لکھا کہ خشخشی داڑھی اور بغیر ٹوپی والے مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی ایک ٹی وی چینل پر سوالات کے جوابات دے رہے تھے‘ اتنے میں ایک سوال آیا کہ کیا یہ کائنات اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوبﷺ کے لئے بنائی ہے؟
غامدی صاحب نے جواباً کہا کہ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے یہ کائنات اپنے حبیبﷺ کے لئے نہیں بنائی بلکہ جن و انس کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔
یہ بات کہہ کر غامدی صاحب نے احادیث رسول کا انکار کیا ہے جوکہ کھلی گمراہی پر مبنی ہے لہذا ہم نے مناسب سمجھا کہ غامدی صاحب سے کئے گئے سوال کا جواب دلائل سے دیا جائے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ غامدی صاحب کی کم علمی و کم فہمی ہو‘ اس لئے ہم مستند کتب و احادیث سے غامدی کی کم علمی اور کم فہمی کو دور کریں گے۔ آپ حضرات ان احادیث اور دلائل کا مطالعہ کرکے خود ہی فیصلہ کریں کہ میڈیا پر آنے والے مذہبی اسکالر علم  دین کی دولت سے کس قدر بے بہرہ ہیں اور انہیں مطالعہ کی کتنی ضرورت ہے۔
۱: حدیث شریف: حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار عظمﷺ فرماتے ہیں کہ جب آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے عرض کی اے میرے رب! محمدﷺ کے صدقہ میری مغفرت فرما۔ رب العالمین نے فرمایا تونے محمدﷺ کو کیونکر پہچانا؟ عرض کی! جب تونے مجھے اپنے دست قدرت سے بنایا اور مجھ میں اپنی روح ڈالی۔ میں نے سر اٹھایا تو عرش کے پایوں پر ’’لاالہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ لکھا پایا تو میں نے جانا کہ تونے اپنے نام کے ساتھ اسی کا نام ملایا ہے جو تجھے تمام مخلوق سے زیادہ پیارا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا! اے آدم علیہ السلام! تونے سچ کہا بے شک وہ مجھے تمام جہان سے زیادہ پیارا ہے اب کہ تونے اس کے نام کا وسیلہ دے کر مجھ سے مانگا تو میں تیری مغفرت کرتا ہوں ولولامحمدما خلقتک اور اگر محمدﷺ نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا نہ کرتا۔
(حوالہ جات: المستدرک للحاکم ۲/ ۲۷۲‘ المعجم الاوسط ۶/۲۱۴ رقم الحدیث ۶۴۹۸‘ المعجم الصغیر ۲/۱۸۲ رقم الحدیث ۹۴ تاریخ ابن عساکر ۷/۴۳۷‘ البدایہ والنہایہ‘ الخصائص الکبریٰ‘ المواہب اللدنیہ‘ کتاب الشفائ‘ مدارج النبوت‘ تفسیر روح البیان‘ تفسیر الدر المنثور‘ تفسیر عزیزی‘ وفاء الوفائ‘ فتاویٰ ابن تیمیہ‘ نشر الطیب اشرف علی تھانوی)
۲۔ (حدیث شریف) حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے مروی حدیث قدسی کا ایک اور مرسل شاہد موجود ہے اس کے الفاظ میں کچھ نکارت ہے اسے امام ابن المنذر نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ امام محمد بن باقر بن علی بن حسین رضی اﷲ عنہم اجمعین سے مروی ہے کہ:
جب حضرت آدم علیہ السلام سے بھول ہوئی تو انہیں بہت زیادہ تشویش ہوئی اور سخت ندامت کا سامنا کرنا پڑا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آکر کہا کہ اے آدم میں تجھے توبہ کا دروازہ بتائوں جس دروازے سے اﷲ تعالیٰ تیری دعا قبول کرلے گا تو آپ نے کہا! ہاں جبرائیل تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا اپنے اس مقام پر کھڑے ہوجائو جہاں اپنے رب سے مناجات کرتے ہو اور اﷲ تعالیٰ کی بڑائی اور مدح سرائی کرو۔ اﷲ تعالیٰ کو مدح سے بڑھ کر کوئی چیز پسند نہیں تو آپ نے کہا اے جبرائیل وہ کیا ہے؟ تو جبرئیل نے کہا کہ تو کہہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں اس کی بادشاہی ہے اور اسی کی حمد ہے وہ زندہ کرتا اور مارتا ہے اور وہ ایسا زندہ ہے جس کو موت ہیں۔ اس کے ہاتھ میں بھلائی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ پھر آپ اپنی بھول سے رجوع کریں اور کہیں اے اﷲ تو پاک ہے اور تمام تعریفیں تیری ہیں۔ اے میرے پروردگار تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ بے شک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں نے لغزش کو جان لیا۔ بس مجھے بخش دے۔ یقینا تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخشتا۔ اے اﷲ میں تجھ سے تیرے بندے محمدﷺ کی عزت و عظمت کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں کہ میری بھول کو بخش دے۔ آدم علیہ السلام نے ایسا کیا تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم تجھے یہ کس نے سکھایا؟ تو عرض کی اے اﷲ جب تونے مجھ میں روح پھونکی تو میں ایک تندرست آدمی کی حیثیت سے کھڑا ہوا جو سننے‘ دیکھنے اور سمجھنے والا تھا۔ تو میں نے تیرے عرش کے پائے پر لکھا ہوا پایا ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم لاالہ الا اﷲ وحدہ لاشریک لہ محمد رسول اﷲ‘‘  جب میں نے تیرے نام کے ساتھ نہ کسی مقرب فرشتے کا نام دیکھا اور نہ ہی مرسل کا نام سوائے اس نام کے تو میں نے جان لیا کہ یہ تجھے ساری مخلوق سے زیادہ عزیز ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تونے سچ کہا اور میں نے تیری توبہ قبول کرلی ہے اور تیری بھول کو تیرے لئے معاف کردیا تو آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی حمد کی اور شکر ادا کیا اور انتہائی سرور اور خوشی میںواپس لوٹے اس انداز سے کوئی بھی اپنے رب کی بارگاہ سے واپس نہیں لوٹا اور آدم علیہ السلام کا لباس نور تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان دونوں سے لباس اتار لیا جائے تاکہ نورانی کپڑے ان دونوں کو ایک دوسرے کی طرف رہنمائی کریں پھر فرشتے فوج در فوج آئے مبارکباد دینے کے لئے جو کہتے! تجھے مبارک ہو اﷲ نے توبہ قبول کرلی اے ابو محمدﷺ
(بحوالہ: تفسیر الدر المنشور جلد اول ص ۹۶‘ التامل فی حقیقتہ التوسل ص ۱۸۸)
۳۔ (روایت) امام محمد بن عبداﷲ نیشاپوری المعروف بالحاکم شافعی علیہ الرحمہ بافادہ تصحیح حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی اے عیسٰی ایمان لا محمدﷺ پر اور تیری امت سے جو لوگ ان کا زمانہ پائیں‘ انہیں حکم کر کہ ان پر ایمان لائیں کہ اگر محمدﷺ نہ ہوتے تو میں آدم کو پیدا نہ کرتا نہ ہی جنت ودوزخ بناتا‘ جب میں نے عرش کو پانی پر بنایا اسے جنبش تھی میں نے اس پر لاالہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ لکھ دیا وہ ٹھہر گیا۔
(حوالہ جات: المستدرک‘ خصائص الکبریٰ‘ مواہب اللدنیہ‘ جواہر البحار‘ وفاء الوفائ)
۴۔ (روایت) اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اے محمدﷺ اگر تم نہ ہوتے میں کائنات کو پیدا نہ کرتا (بحوالہ: تفسیر روح البیان ۹/۱۹۴‘ جواہر البحار ۲/۲۴۵)
۵۔ (روایت) مفسر قرآن علامہ سید محمود آلوسی بغدادی علیہ الرحمہ اپنی تفسیر کی کتاب تفسیر روح المعانی جلد اول ص ۱۸ پر یہ روایت نقل فرماتے ہیں کہ سارے جہان کو فیض حضورﷺ کے وسیلہ اور واسطہ سے ملا ہے جیسا کہ اس کی طرف حدیث قدسی‘ لولاک ماخلقت الافلاک اشارہ کرتی ہے۔
۶۔ (روایت) حافظ کبیر محدث شہیر مورخ بے نظیر امام ابو شجاع شیرویہ بن شہردار ویلمی الھمدانی علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ حضرت سیدنا عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار اعظمﷺ نے ارشاد فرمایا میرے پاس جبرائیل نے حاضر ہوکر عرض کی اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم محمدﷺ نہ ہوتے تو میں جنت کو نہ بناتا اور اگر تم محمدﷺ نہ ہوتے تو میں دوزخ کو نہ بناتا۔
(حوالہ جات: الفردوس بما ثور الخطاب ۵/۲۲۷‘ شرح مواھب اللدنیہ ۱/۴۴‘ الموضوعات الکبریٰ ص ۵۹‘ سبل الہدی والرشاد ۱/۷۵ تجلی الیقین ص ۵۹‘ کنزالعمال شریف ۱۱/۴۳۱)
۷۔ (روایت) اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اگر محمدﷺ نہ ہوتے تو اے آدم میں تمہیں پیدا نہ کرتا اور نہ عرش کو پیدا کرتا اور نہ ہی کرسی کو اور نہ لوح کو اور نہ قلم کو اور نہ آسمان کو اور نہ زمین کو اور نہ بہشت کو اور نہ دوزخ کواور نہ دنیا کو اور نہ آخرت کو‘‘ (بحوالہ : جواہر البحار ۳/۲۴۵ از شیخ محمد مغربی)
۸۔ (روایت) شیخ محی الدین ابن العربی الطائی علیہ الرحمہ اپنی کتاب الفتوحات المکیہ جلد اول ص ۱۰۱ پر لکھتے ہیں کہ بے شک اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اے محمدﷺ تم نہ ہوتے تو زمین و آسمان اور جنت جہنم کو پیدا نہ کرتا۔
جاوید حمد غامدی کا اعتراض
اﷲ تعالیٰ نے یہ کائنات حضورﷺ کے لئے نہیں بلکہ اپنی عبادت کے لئے بنائی ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے تخلیق کائنات کامقصد اور حکمت یہ بیان فرمائی ہے۔
القرآن‘ ترجمہ… میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا (سورہ ذاریات: ۵۶)
الجواب… بعض بدنصیب لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ جہاں کہیں شان رسالتﷺ کو دیکھتے ہیں فورا انکار شروع کردیتے ہیں‘ یہ بدمذہبوں کی پرانی عادت ہے۔ اس قدر مستند احادیث پیش کرنے کے بعد بھی انہیں کوئی اور چارہ کار نہیں ملاتو اپنے دل کی بھڑاس نکالنے اور بھولے بھولے مسلمانوں کو ورغلانے کے لئے اس آیت کو بنیاد بنایا۔
اس آیت کے ترجمے پر غور کریں۔ ترجمہ: میں نے جنوں اور انسانوںکو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا۔
اس آیت میں مخلوقات کی صرف دو اقسام جن و انس کا ذکر ہے۔ اس آیت میں جن و انس کے علاوہ جنت‘ جہنم‘ ملائکہ اور کائنات کی دیگر چیزوں کا تو ذکر ہی نہیں ہے؟؟ اعتراض کرنے والے کو اتنا بھی علم نہیں ہے کہ دلیل دعویٰ کے مطابق ہونی چاہئے۔
اب سنئے احادیث لولاک سے صاف اور واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حضورﷺ کا وجود آسمان و زمین‘ جنت ودوزخ‘ شمس و قمر‘ بحر و بر اور جملہ موجودات اور بالخصوص انبیاء کرام علیہم السلام اور ان میں بھی خاص طور پر حضرت آدم علیہ السلام کی علت ایجاد و تخلیق ہے۔
اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے خلق لکم ما فی الارض جمیعا (سورہ بقرہ پرہ ۲ آیت ۲۳)
اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے مافی الارض جمیعا (جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب) کی تخلیق کو انسانوں کے لئے قرار دیا اور مفسرین کرام لکم کے لام کو انتفاع کے لئے قرار دیتے ہیں۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ مافی الارض جمیعا کی تخلیق انسانوں کے فائدہ کے لئے ہوئی ہے اور اس میں کسی کو بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے تو پھر تخلیق کائنات کے لئے حضورﷺ کے وجود کو علت و سبب اور آپﷺ کی تخلیق کی مرہون قرار دینے میں کیا حرج ہے۔ حالانکہ دونوں باتیں وحی الٰہی سے ثابت ہیں۔
علامہ ابراہیم باجوری علیہ الرحمہ حدیث قدسی از عمر فاروق رضی اﷲ عنہ جسے امام حاکم و امام بہیقی نے روایت کیا ہے‘ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ’’آدم علیہ السلام کا وجود حضورﷺ کے وجود پر موقوف ہے حالانکہ حضرت آدم علیہ السلام ابو البشر ہیں (یعنی بنی نوع انسان کے باپ) اور ان ہی کے لئے اﷲ تالیٰ نے مافی الارض کو پیدا فرمایا اور سورج‘ چاند‘ دن اور رات کو مسخرفرمایا وغیرہ جیسا کہ قرآن مجید کی نص ہے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے خلق لکم ما فی الارض جمیعا‘ و سخر لکم الشمس والقمر دائبین  وسخر لکم اللیل و النہار اور جب یہ تمام چیزیںبشر کی خاطر پیدا کی گئیں اور ابو البشر آدم علیہ السلام کو حضورﷺ کی وجہ سے پیدا فرمایا گیا تو اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ دنیا حضورﷺ کے سبب وجود میں آئی اور پیدا کی گئی لہذا اس سے ثابت ہوا کہ حضورﷺ کی ذات ہر شے کے وجود کے لئے سبب ہے (حاشیہ الامام البیجوری علی من البردۃ ص ۲۱ مطبوعہ قاہرہ مصر)
ان تمام دلائل و براہین سے یہ ثابت ہوگئی کہ حضورﷺ کی خاطر اﷲ تعالیٰ نے اس کائنات کا ظہور فرمایا ہے لہذا اب جاوید احمد غامدی صاحب کوتسلیم کرلینا چاہئے کہ حضورﷺ وجہ وجود کائنات ہیں اور ہماری غامدی صاحب سے گزارش ہے کہ وہ دینی علم حاصل کریں تاکہ ٹھوکر نہ کھانی پڑے۔

No comments:

Post a Comment